ہر شام بس یوں ہی ڈھل رہی ہے
جیسے زندگی ہاتھ سے نکل رہی ہے
جن کلائیوں میں کھنکتی تھی چوڑیاں کبھی
آج اُس کی کھنک کہیں کھو گئی ہے
کبھی خموش ہنسی تو کبھی تبسم ریز باتیں
دِلوں میں اُلفت تھی جو کبھی وہ شاید بدل گئی ہے
ہر شام بس یوں ہی ڈھل رہی ہے
زندگی بس یوں ہی گزر رہی ہے
از_________حافظہ صنوبر ناز زہراوی Sanober Naaz